آندھی ہے تلاطم ہے مصیبت ہے بلا ہے
شعلے ہیں شرارے ہیں جہنم کی ہوا ہے
نفرت کا یہ موسم ہے تعصب کی فضا ہے
محشر سے بہت پہلے یہاں حشر بپا ہے
شعلے ہیں شرارے ہیں جہنم کی ہوا ہے
نفرت کا یہ موسم ہے تعصب کی فضا ہے
محشر سے بہت پہلے یہاں حشر بپا ہے
سجدے بھی کیےخاک پہ مانگی ہے دعا بھی
ناراض ہے اس قوم سے شاید کہ خدا بھی
ناراض ہے اس قوم سے شاید کہ خدا بھی
ہر سمت یہاں نالہ و فریاد و فغاں ہے
بستی کہاں بستی ہے قیامت کا سماں ہے
دنیا کی ہے یہ شکل کہ دوزخ کا گماں ہے
اے مالکِ کونین ترا رحم کہاں ہے
برہم ہوئے انسان غم و رنج و الم سے
مایوس نہ کر اِن کو عنایت سے کرم سے
مایوس نہ کر اِن کو عنایت سے کرم سے
افسوس کہ آپس میں ہیں ہم بر سرِ پیکار
روتے ہیں یہاں لوگ تو خوش ہوتے ہیں اغیار
اِس قوم کو کیا جانئے کیا لگ گیا آزار
انجام سے ڈرتا ہوں کہ اچھے نہیں آ ثار
حالات سے ہر ایک ہے بے چین پریشان
اِس ملک میں چلتا ہے کسی اور کا فرمان
اِس ملک میں چلتا ہے کسی اور کا فرمان
حیران ہوں یہ لوگ بھی انسان ہیں یا رب
جاتے ہیں جہاں موت کا سامان ہیں یا رب
چلتا ہوا پھرتا ہوا طوفان ہیں یا رب
دنیا کی نظر میں یہ مسلمان ہیں یا رب
بندے ہیں ترے دہر میں یہ کام کیا ہے
ہر دیس میں اسلام کو بدنام کیا ہے
ہر دیس میں اسلام کو بدنام کیا ہے
اس طرح کے بے رحم بھی ہوتے ہیں مسلمان
دکھ درد سے بےحس ہیں کہ جیسے کوئی بے جان
دیندار ہیں ایسے کہ نہیں دین کی پہچان
رکھتے ہیں تمنا کہ ہر اک شہر ہو سنسان
کوتاہی افکار ہے اور ذہن ہیں بیمار
دوزخ کے ہیں معمار یہ جنت کے طلبگار
دوزخ کے ہیں معمار یہ جنت کے طلبگار
ظالم ہیں کہ مظلوم ہیں کیا جانئے کیا ہیں
یہ اہلِ ستم ہیں کہ گرفتارِ بلا ہیں
بیداد کی تصویر ہیں نفرت کی ادا ہیں
بت خانہ عالم میں پرستارِ خدا ہیں
مرنے کے سوا کوئی تمنا نہیں رکھتے
بیمار ہیں پر شوقِ مسیحا نہیں رکھتے
بیمار ہیں پر شوقِ مسیحا نہیں رکھتے
گزری ہے کچھ ایسی کہ زمانے سے ہیں بیزار
پھولوں سے نہیں گلشنِ ہستی میں سروکار
ہر موجِ صبا کرتی ہے اک درد کو بیدار
مرنے کو ہیں تیا ر یہ نا واقفِ اسرار
پیدا ہوئے جس دن سے مرے ہیں نہ جئے ہیں
بے خوف و خطر جسموں سے بم باندھ لئے ہیں
بے خوف و خطر جسموں سے بم باندھ لئے ہیں
جا کر کسی مسجد میں اڑا دیتے ہیں خود کو
بچوں کے سکولوں میں جلا دیتے ہیں خود کو
قاتل ہیں کچھ ایسے کہ مٹا دیتے ہیں خود کو
نفرت کی یہ حد ہے کہ بھلا دیتے ہیں خود کو
مل جائے گا کیا اِن کو اگر سوگ بہت ہوں
مرتے ہیں وہاں جا کے جہاں لوگ بہت ہوں
مرتے ہیں وہاں جا کے جہاں لوگ بہت ہوں
مقصد ہے کہ شہروں میں تباہی سی مچا دیں
اونچی ہیں سروں سے جو عمارات گرا دیں
بارود کے شعلوں میں گلستاں کو جلا دیں
مٹنا ہے اگر خود تو ہر اک چیز مٹا دیں
جیتے رہے کچھ اور تو کیا اِن کو ملے گا
وہ زخم ہے دل پر نہ مٹے گا نہ سلے گا
وہ زخم ہے دل پر نہ مٹے گا نہ سلے گا
مانا کہ بڑے قہر سے گزرے ہیں بچارے
ماں باپ بہن بھائی مرے جنگ میں سارے
بمباریاں اِن پر ہوئیں برسے ہیں شرارے
احباب جو باقی تھے وہ جنت کو سدھارے
دو بار قیامت تو بپا ہو نہیں سکتی
دکھ ایسے ملے ہیں کہ دوا ہو نہیں سکتی
دکھ ایسے ملے ہیں کہ دوا ہو نہیں سکتی
No comments:
Post a Comment